پانی تڑپ کے چیخ اُٹھے ' ایسے جال کِھینچ !
مَچھلی اگر نہ آئے ' سَمُندر کی کھال کِھینچ
رِشتوں کے ساتھ بچّوں کے جیسا سلُوک کر
غُصّے سے کان کِھینچ ' مَحبّت سے گال کِھینچ
لا ۔۔۔ مَیں زِیاں کی آگ میں اِس کو بھی جھونک دُوں
جا ۔۔ دفرتِ حیات سے ایک اور سال کِھینچ
اپنے عرُوج کے لیے رستہ نیا بنا
مت اِرد گِرد میرے حصارِ زوال کِھینچ
جانا ہے مسکراتے ہُوئے سب کے سامنے
اَے دِل ! ذرا سا چہرے سے رنگِ ملال کِھینچ
جیسے گُھما پِھرا کے پٹَختی رہی تجھے
تُو بھی زمیں کو گیند کی صُورت اُچھال ' کِھینچ !
خُورشید ِ صُبح زاد ! کہِیں سے نکل کے آ
سَر سے عرُوسِ شب کے ستاروں کا جال کِھینچ
باتوں سے پُر شِگاف ِ تعلُّق نہیں ہُوا
ممکِن اگر ہو ' آئِنہ ء دِل سے بال کِھینچ
2 تبصرے
Bhot khob
جواب دیںحذف کریںشکریہ جناب
حذف کریںWrite your comments here