Ticker

6/recent/ticker-posts

ایک عورت کا عجیب و غریب قصہ

زیرِ نظر ایک عورت کا عجیب وغریب قصہ ہے جو بکھرے موتی جلد اول سے لیا گیا ہے۔ اسلامی کہانیاں اور بچوں کی کہانیاں یہاں آپ پڑھ سکتے ہیں


زرقانی شرح موطا امام مالک میں ایک بڑا عجیب واقعہ لکھا ہے

 ہے کہ مدینہ منورہ کے گردونواح میں ایک ڈیرے پر ایک عورت فوت ہو جاتی ہے تو دوسری عورت اسے غسل دینے لگی، جو غسل دے رہی تھی جب اس کا ہاتھ مری ہوئی عورت کی ران پر پہنچا تو اس کی زبان سے نکل گیا میری بہنو!(جو دوچار ساتھ بیٹھی ہوئی تھیں) یہ جو عورت آج مر گئی ہے اس کے تو فلاں آدمی کے ساتھ خراب تعلقات تھے۔ 

غسل دینے والی عورت نے جب یہ کہا تو قدرت کی طرف سے گرفت آگئی اس کا ہاتھ ران پر چمٹ گیا جتنا کھینچتی ہے وہ جدا نہیں ہوتا زور لگاتی ہے مگر ران ساتھ ہی آتی ہے، دیر لگ گئی میت کے ورثاء کہنے لگے بی بی جلدی غسل دو شام ہونے والی ہے ہم کو جنازہ پڑھ کر اس کو دفنانا بھی ہے۔ وہ کہنے لگی کہ میں تو تمہارے مردے کو چھوڑتی ہوں مگر وہ مجھے نہیں چھوڑتا، رات پڑ گئی مگر ہاتھ یوں ہی چمٹا رہا دن آگیا پھر ہاتھ چمٹا رہا اب مشکل بنی تو اس کے ورثاء علماء کے پاس گئے۔ ایک مولوی سے پوچھتے ہیں مولوی صاحب ایک عورت دوسری عورت کو غسل دے رہی تھی تو اس کا ہاتھ اس میت کی ران کے ساتھ چمٹا رہا اب کیا کیا جائے؟ وہ فتویٰ دیتا ہے کہ چھری سے اس کا ہاتھ کاٹ دو۔ غسل دینے والی عورت کے وارث کہنے لگے ہم تو اپنی عورت کو معذور کرنا نہیں چاہتے ہم اس کا ہاتھ نہیں کاٹنے دینگے۔

انہوں نے کہا فلاں مولوی کے پاس چلیں اس سے پوچھا تو کہنے لگا چھری لے کر مری ہوئی عورت کا گوشت کاٹ دیا جائے مگر اس کے ورثاء نے کہا کہ ہم اپنا مردہ خراب کرنا نہیں چاہتے۔ تین دن اور تین راتیں اسی طرح گزر گئے گرمی بھی تھی دھوپ بھی تھی بدبو پڑنے لگی، گردونواح کی کئی کئی دیہاتوں تک خبر پہنچ گئی۔ انہوں نے سوچا کہ یہاں مسئلہ کوئی حل نہیں کر سکتا چلو مدینہ منورہ میں، وہاں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ اس وقت قاضی القضاۃ کی حیثیت میں تھے۔ وہ لوگ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، حضرت! ایک عورت مری پڑی تھی دوسری عورت اسے غسل دے رہی تھی اس کا ہاتھ اُس کی ران کے ساتھ چمٹ گیا اور چھوٹتا ہی نہیں تین دن ہو گئے، کیا فتویٰ ہے؟ 

آپ نے فرمایا کہ مجھے وہاں لے چلو، وہاں پہنچے اور چادر کی آڑ میں پردے کے پیچھے کھڑے ہوکر غسل دینے والی عورت سے پوچھا کہ بی بی جب تیرا ہاتھ چمٹا تھا تو تو نے زبان سے کوئی بات تو نہیں کہی تھی؟ وہ کہنے لگی کہ میں نے اتنا کہاتھا کہ یہ جو عورت مری ہے اس کے فلاں آدمی کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے۔

امام مالک رحمۃ اللہ تعالی نے پوچھا بی بی! جو تو نے تہمت لگائی ہے کیا اس کے چار چشم دید گواہ تیرے پاس ہیں؟ کہنے کگی نہیں، پھر فرمایا کہ کیا اس عورت نے خود تیرے سامنے اپنے بارے میں اقرار جرم کیا تھا؟ کہنے لگی نہیں۔فرمایا: پھر تو نے کیوں تہمت لگائی؟ اس نے کہا میں نے اس لیے کہہ دیا تھا کہ وہ گھڑا اٹھا کر اس کے دروازے سے گزر رہی تھی۔ یہ سن کر امام مالک نے وہیں کھڑے ہوکر پورے قرآن میں نظر دوڑائی پھر فرمانے لگے قرآن پاک میں آتا ہے۔

مفہوم: جو عورتوں پر ناجائز تہمتیں لگا دیتے ہیں پھر ان کے پاس چار گواہ نہیں ہوتے تو ان کی سزا ہے کہ ان کو اسی کوڑے مارے جائیں۔

تو نے ایک مردہ عورت پر تہمت لگائی تیرے پاس کوئی گواہ نہیں تھا میں وقت کا قاضی القضاۃ حکم کرتا ہوں۔ جلادو! اسے مارنا شروع کر دو۔ جلادوں نے اسے مارنا شروع کر دیا وہ کوڑے مارے جا رہے ہیں

 ستر کوڑے مارے مگر ہاتھ یوں ہی چمٹا رہا۔

پچھتّر کوڑے مارے گئے مگر ہاتھ پھر بھی یونہی چمٹا رہا

اناسی کوڑے مارے تو ہاتھ پھر بھی نہ چھوٹا

جب اسّی واں کوڑا لگا تو اس کا ہاتھ خود بخود چھوٹ کر جدا ہو گیا۔

(بکھرے موتی جلد اول ورق نمبر 117)

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے